Socio-Political Issues

مذہبی شدت پسندی اور دعوت دین


سلمان احمد شیخ

مذہب میں جو مطالبات فرد سے متعلق ہیں ان میں انسان اللہ کے ہاں ہی مسئول ہے۔ حکومت کا بنیادی کام جان و مال کا تحفظ اور عدل و انصاف فراہم کرنا ہے۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ نفاذ قانون سراسر حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس میں فرد یا کسی گروہ کا کوئی اختیار نہیں۔ افسوس کہ نہ صرف ہمارے ردعمل میں توازن نہیں رہتا جب اپنے فہم کے مطابق برائی کا صدور دیکھیں بلکہ یہ بات بھی بھول جاتے ہیں کہ قوت نافذہ حکومت کے پاس ہی ہوتی ہے۔

اسی غلط فہم اور اس کے اطلاق سے کبھی محض الزامات پر لوگوں کی جان تک لے لی جاتی ہے۔ نجی طور پر جہاد اور خروج کا فساد بھی اسی وجہ سے ماضی میں بھگتنا پڑا۔ اس حوالے سے عام لوگوں کے فہم میں ہی یہ غلطی نہیں ہے بلکہ کئی ایک نامور اہل علم بھی اس بات میں کوئی لحاظ نہیں کرتے کہ کون سے احکامات ہیں کہ جن میں قانونی طاقت سے نفاذ صرف حکومت کرسکتی ہے۔ ماوراۓ عدالت جان لینا تک گوارا کرلیا جاتا ہے بلکہ اس عمل کی تحسین بھی کی جاتی ہے جیسا کہ متعدد واقعات میں لوگوں کو محض الزام، افواہ اور نا مکمل عدالتی کارروائی پر گستاخی  کے ضمن میں زندگی سے محروم کردیا گیا۔

کچھ عرصہ پہلے فیصل آباد میں کئی گرجا گھر جلادیے گۓ۔  ایک دو فیصد سے زیادہ غیر مسلم نہیں اس ملک میں مگر ان کا جینا مشکل ہوگیا ہے۔

ڈارون کے حیاتیاتی نظریہ کے بعد سائنس اور معقولیت کی دنیا میں خدا اور مذہب کے پیغام کو پھیلانے میں مسیحی سائنسدانوں کا بہت کام ہے۔ الحاد کی فضاء میں مسیحی امریکی معاشرہ نے ہی ثابت کیا کہ مذہبی انسان بھی سائنس سمیت ہر شعبہ میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ تین درجن مسیحی نوبل انعام یافتہ سائنسدان گزرے ہیں بیسویں صدی میں۔ بگ بینگ کی دریافت سے لے کر ڈی این اے کی تحقیق تک، خدا کا وعدہ ان کے ذدیعہ پورا ہوا اور آفاق و انفس کی نشانیاں کھل گئیں۔ مگر حق کی راہ میں اب پردہ ہے تو ہمارے سیاہ اعمال۔ سب سے زیادہ لوگ مسیحی مذہب سے مسلمان ہوتے ہیں۔

توہین مذہب، گستاخی اور تکفیر سب سے بڑا فتنہ ہے مذہب کے نام پر۔ جنون سوار ہو تو عقل ماؤف ہوجاتی ہے۔ کوئی ہمارے جیسے مذہبی جنونی معاشرہ میں سوچ بھی سکتا ہے گستاخی کا جب صفائی کے دوران کوئی اسٹیکر اتارنے، دیوار صاف کرنے اور کچرا لیتے وقت بے خیالی میں کسی ورق کو بھی شامل کرنے پر تشدد کرکے لعش کو آگ لگادی جاتی ہے حیوانی ہجوم کی جانب سے۔ پھر گستاخی کرکے کوئی اپنی تصویر اور نام بھی چھوڑ کر جاۓ گا۔ اس پر خود کی عقل سے کچھ نہیں بھی سمجھ آرہا ہو تو قانون کو اپنا کام نہیں کرنے دینا چاہیے۔ کیا ہم میں اجتماعی طور پر بھی اتنی سمجھ، عقل اور انسانیت نہیں؟

تمام انسان ہمارے مدعو ہیں اور بحیثیت امت وسط ہماری ذمہ داری تھی کہ ان تک اسلام کاپیغام اپنے علم و عمل سے پہنچائیں۔ مگر ہمارے متشدد علم جو مذہب کی غلط تفہیم سے عبارت ہے اور حیوانی رویے جس کی زد سے اب مسلمان بھی محفوظ نہیں، دین کی دعوت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔

دین کی اساس ایک خدا کے سامنے اپنے اعمال کی جواب دہی اور آخرت میں جزا کا تصور ہے۔ مگر ہمیں آخرت پر بھی یقین نہیں۔ پشاور میں کچھ سال پہلے عین عدالت میں مقدمے کی سماعت کے دوران ایک شخص کو ماردیاگیا۔ کسی کو تھانے کے اندر۔ کسی کو پولیس کی تحویل میں تھانے کی طرف جاتے ہوۓ۔ کسی کو مدرسے میں لگی نجی عدالت تک پہنچتے ہوۓ۔ خدائی فوجدار بن کر خدا کے بالمقابل خود محتسب اور منصف بننا ہے اور اس کی نسبت خدا کی طرف کرنی ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنی ہے۔ شرک ظلم عظیم اس لیے ہے کہ یہ خدا پرجھوٹ باندھنا ہے۔

کئی اہل علم نے اس مسئلہ پررہنمائی کی ہے کہ گستاخی مسلمان سے ہو تو ارتداد کا مقدمہ چلے گا اور پھر ملزم کے بیان کو حتمی سمجھا جاۓ گا۔ الفاظ کی تاویل میں کوئی بات گستاخی کی طرف اور کوئی دوسری طرف لے جاتی ہو تو حسن ظن رکھتے ہوۓ اسی دوسری طرف والی تاویل کو لیا جاۓ گا۔

ہمارے نزدیک تربیت، تنبیہ اور اصلاح کوئی چیز نہیں۔ عدالت، باقاعدہ معروضی تحقیق اور نظم اجتماعی کوئی چیز نہیں۔ پھر یہی ہوگا کہ لوگ مذہب اور مذہبی لوگوں سے گریز کریں۔ افسوس ہے ان لوگوں پر جو اس کی وجہ بنتے ہیں اور دین کی دعوت کے راستے میں خدائی فوجدار بن کر خود حائل ہوتے ہیں۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ تمہیں دوسرے کی آنکھ کا تنکا نظر آتا ہے، مگر اپنی آنکھوں کا شہتیر نہیں۔ دانے چھانتے ہو اور اونٹ نگل جاتے ہو۔

الحادتیزی سے ہمارے متشددانہ رویوں کی وجہ سے پھیل رہا ہے۔ اصلاح اخلاق اور دین کی اصل بنیادی تعلیم توحید اور آخرت میں جواب دہی پرسب سے زیادہ تعلیم و تربیت اور وعظ و خطبوں میں زور ہونا چاہیے۔ مگر سب سے زیادہ یہی ہماری تعلیم و تربیت اور خطبوں میں مفقود ہے۔

کچھ عرصہ پہلے ایک شخص جس پر الزام تھا کہ وہ مقدس اوراق پر اپنی بیوی کی تصویر لگا کر جادو کرتا ہے، اسے جیل میں پولیس کی تحویل سے نکال کر ہجوم نے زندہ جلادیا۔ پولیس اسٹیشن میں پولیس ہی کی تحویل سے نکال کر یہ واقعہ پیش آیا۔

اس سے پہلے حیدرآباد کے ایک پلازہ میں ایک ہندو خاکروب پر توہین قرآن کا الزام لگایا گیا۔ اس الزام کو رفع ہوجانا چاہیے تھا جب یہ پتہ چل گیا کہ ایسا غلطی اور لاعلمی سے ہوا۔ اگر کچھ سرزنش کرنی بھی چاہیے تھی تو خطبہ یا نوٹس بورڈ کے ذریعے وہاں پر رہنے والے مسلمانوں کی کہ مقدس اوراق کو متعلقہ اداروں تک پہنچایا کریں۔

اس جذباتی معاشرہ میں جہاں ہجوم کے ہاتھوں عدالت لگا کر لوگ معاشرہ میں لمحہ میں ہیرو بن جاتے ہیں، اس فضاء میں کوئی بقائمی ہوش و حواس سوچ بھی نہیں سکتا گستاخی یا توہین کا۔

افسوس ہے کہ ہمارے اہل علم قانون کو ہاتھ میں نہ لینے کو برائی ہی نہیں بیان کرتے۔ بلکہ اس کے برعکس اس کی حوصلہ افزائی اور مدح سرائی کی جاتی ہے۔

قرآن میں بد ظنی سے، افواہوں پر ردعمل سے اور تہمت لگانے سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔

قرآن میں مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معاندین کی جانب سےبرے القاب سے پکارا جاتا ۔ وہ نعوذ باللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کاہن، شاعر، جادوگر کہتے معاذ اللہ۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذاتی حیثیت میں کبھی بدلہ نہیں لیا۔

پھر روایات میں جو کچھ لوگوں کی سزاؤں کا ذکر ہے تو یہ متعین کرنا پڑے گا کہ وہ کس جرم میں دی گئیں۔ عبد اللہ بن خطل کو قتل کی سزا دی گئی۔ ابو رافع کو غزوہ خندق میں بغاوت کی۔ کعب بن اشرف اور دیگر کو بھی بغاوت پر اکسانے اور فساد فی الارض کی۔ یعنی ان کا واحد جرم شتم رسول نہیں تھا بلکہ اس کے ساتھ کئی جرائم بھی شامل تھے اور اصل میں ان ہی کی سزائیں دی گئیں۔

ابو جہل غزوہ بدر میں مارا گیا۔ ابو لہب کو اللہ نے طبعی عذاب دیا جب وہ غزوہ بدر میں موت سے بچنے کے لیے غزوہ میں نہیں شریک ہوا۔ مگر جو لوگ غزوہ میں نہیں مارے گۓ تو پھر انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی بنا پر ہی نہیں مارا گیا الا یہ کہ انہوں نے ایسا بار بار کیا اور فساد فی الارض کے مجرم بن گۓ۔ ابو سفیان، ان کی زوجہ، جس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کی جان لی، ان سب کومہلت ملی اور وہ بالآخر ایمان لے آۓ۔

ائمہ اربعہ میں حنفی فقہاء اور جمہور فقہاء میں شتم رسول کی سزا کے حوالے سے اختلاف ہے۔ ماہنامہ الشریعہ جو مولانا زاہد الراشدی صاحب کی زیر صدارت نکلتا ہے، اس پر مقالات موجود ہیں۔ فقہاء مسلمان گستاخ کے لیے سزاۓ موت کے قائل اس طرح سے ہیں کہ ایسا شخص مرتد ہوجاتا ہے۔ مگر اسے توبہ کاموقع دیا جاۓ گا۔ اگر وہ توبہ کرلے یا انکار کردے کہ اس نے ایسا نہیں کہا یا اسکامطلب توہین نہیں تھا تواسے چھوڑدیا جاۓ گا۔ غیر مسلم ذمیوں پر اسکااطلاق نہیں ہوگا اور گستاخی کی صورت میں ان کا ذمہ نہیں ٹوٹے گا۔ مگر انہیں پہلی دفعہ اس فعل شنیع پر تنبیہ اورتکرارو اصرار پر ہی تعزیرا سزا دی جاسکے گی۔ یہ موقف امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام ابن عابدین، امام طحاوی اور دیگر قدیم فقہاۓ احناف کا ہے۔

تدبیر کے طور پر مسلمانوں کا یہ جوابی رویہ کہ قانون کو ہاتھ میں لیں، کسی کو مارکر جلادیں، انفرادی طور پر کسی بھی ملزم پر جرح اور ثبوت جرم کے بغیر گھات لگا کر حملہ کریں، اس سے مذہب کا کیا تاثر بنتا ہے۔ پھر ان اقدامات کی مذمت کے بجاۓ مدح سرائی یہاں تک کہ ایسا کرنے والوں کے جنازوں کو امام احمد بن حنبل رح کے جنازے سے تشبیہ دینا کیا تربیت کرتا ہے۔

یہود پر سورہ بقرہ میں یہ تبصرہ کیا گیا کہ جب ہدایت کی روشنی آگئی تو انہوں نے آنکھیں بند کرلیں۔ ہم مسلمانوں کا بھی یہ المیہ ہے کہ سورہ فصلت کے مطابق خود غیر مسلموں کے مطالعہ کائنات کے ذریعہ جب خدا نے اپنا وعدہ پورا کردیا اور آفاق و انفس کی روشنیاں دکھاکر گویا قرآنی دعوت توحید اور اللہ کے خالق ہونے کی صفت کی مشاہداتی پریزینٹیشن مہیا کردی، تب ہم نے پست اخلاق کے ذریعہ دین کی دعوت میں آخری پردہ گرانے کے بجاۓ ایک اور پردہ اپنی بدعملی سے حائل کردیا۔

غیر مسلم جب ہمیں ہی توحید و اخلاق کی دعوت کے علاوہ دوسرے فروعی اختلافات میں دست و گریبان پاۓ، اپنی ہی مساجد میں ایک دوسرے کی جان کے درپے پاۓ اور خون بہاتا ہوا دیکھے اور ہم سے معاملات کرتے ہوۓ ہمیں خود غرض، غیر فرض شناس اور بددیانت پاۓ تو کیوں کر اس کی توجہ دین کی جانب مبذول ہوگی۔

مولانا زاہد الراشدی صاحب نے بہت احسن انداز میں اس پر بحث کی ہے کہ گستاخ رسول  کی کیا سزا ہونی چاہیے فقہ حنفی کے تحت۔ قتل سزا نہیں ہے۔ قتل کی سزا صرف ارتداد میں ہے فقہ حنفی کے تحت۔ ارتداد یہ کہ مسلمان جانتے بوجھتے اپنے دین سے قطعی اتمام حجت کے بعد  پھر جاۓ۔ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کے ساتھ ایمان کا کوئی سوال نہیں رہتا تو ایسا شخص فقہاء کے نزدیک مرتد ہوجاتا ہے۔ ارتداد کی سزا صرف مسلمانوں پر لاگو ہوگی، وہ بھی اس وقت جب مسلمان خود اس کا اقرار کرلے۔ پھر اقرار کے بعد بھی توبہ کا وقت دیا جاۓ گا۔ اگر وہ اقرار نہ کرے کہ اس نے یہ نہیں کہا یا اس کا یہ مدعا نہیں تھا تو اس کے بیان کو حرف آخر سمجھا جاۓ گا۔ اگر قانون فقہ حنفی کے مطابق بھی بنالیا جاتا تو اس سے غیر مسلم محفوظ رہیں گے اور مسلمانوں پر بھی محض الزام اور تہمت سے ظلم نہیں ہوگا۔

باقی فساد فی الارض کے تحت سزا اسی وقت زیبا ہے جب واقعی میں فساد فی الارض کا جرم ثابت ہو۔ بغیر ثبوت اور تحقیق کے کسی کو اسٹیکر اتارنے، کسی کو صفائی میں کوئی ورق لینے، کسی کو مسلمانوں کی جگہ سے پانی لینے، کسی نفسیاتی مریض کی لایعنی بات کو پکڑنے اور کسی کی انتظامیہ یا ناانصافی پر تنقید کو گستاخی قرار دے کر ہجوم کا سزا دینا انسانیت کے علاوہ دین کے ساتھ، اللہ کے ساتھ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور اسلام کی دعوت کے ساتھ بدترین ظلم ہے۔

اس کے باوجود خود سے انصاف کو ہاتھ میں لینے کی روش پر بدستور قابو نہ پایا جاسکا۔ ہر چند دنوں بعد اس طرح کے واقعات سامنے آتے ہیں۔ بنیادی وجہ خود مذہبی قائدین کی خاموش تائید ہے۔ شاید ہی کسی اور چیز سے دین کی دعوت کو  زیادہ نقصان پہنچاہو۔ اٹھانوے فیصد مسلمان معاشرے میں بھی گستاخ برآمد کرلیے جاتے ہیں اور وہ بھی مسلمانوں میں سے۔ یہی واضح نہیں ہے خود مذہبی طبقہ میں کہ کون سی ہدایات صرف نظم اجتماعی کے تحت حکومت کی طرف سے نافذ ہوسکتی ہیں۔

گستاخی اگر فساد فی الارض کے زمرے میں آۓ تو قانون کے دائرہ میں عدالت سزا دے سکتی ہے اور کوئی طرز عمل فساد فی الارض کے  زمرے میں تب ہی آسکتا ہے جب گستاخی کا اقرار ہو خود ملزم کی جانب سے، اس پر اصرار ہو اور اس کی معاشرے میں کھلے عام تکرار ہو۔

محض سنی سنائی بات جس کی تفتیش بھی نہ ہوئی ہو، اس بات کا جواز نہیں بن سکتی کہ کسی شخص کو ماوراۓ قانون ماردیا جاۓ۔ سورہ حجرات اس معاملے میں بڑی واضح ہدایات دیتی ہے۔

اس طرح کے واقعات کا سدباب صرف یہ ہے کہ ریاست ہجوم میں موجود تمام لوگوں کو فساد فی الارض کی سزا دے۔ جن پر پوری طرح الزام ثابت نہ ہو مارنے میں تعاون کا، ان کو بھی ہجوم میں شامل ہونے کی وجہ سے کم از کم پانچ سے سات سال بامشقت سزا دی جاۓ۔ اس طرح کے طرز عمل کو ابھارنے والے اور لاؤڈ اسپیکر پر اعلان کرنے والوں کو فساد فی الارض کی سزا دی جاۓ۔ حیرت ہے جیو فینسنگ کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جب کہ اس کی ضرورت اس طرح کی صورت حال میں زیادہ ہوتی ہے۔  گستاخی کا الزام لگانے والے پر لازم ہو کہ ثبوت پیش کرے نہیں تو اسے کڑی سزا دی جاۓ۔

سزا صرف عدالت دے سکتی ہے۔ کسی صورت عدالت سے ماوراء نہ سزا دی جاسکتی ہے اور نہ لا قانونیت پر ابھارا جاسکتا ہے۔ ایسا کرنے والوں کو چاہے وہ ایک شخص یا ہجوم ہو، انہیں فساد فی الارض کی سزا دی جانی چاہیے۔ غیر مسلم معاہد پر تو اس کا اطلاق ہی نہیں ہوتا۔ وہ ہمارے مدعو ہیں۔ یہ فقہ حنفی کے مطابق بھی صحیح موقف ہے۔

مذہب سے دوری پاکستانی معاشرے میں بڑھنے کی وجوہات میں اس طرح کے واقعات شامل ہیں۔ لوگ دین سے دور خود مسلمانوں کو دیکھ کر، ان سے معاملات کرتے ہوۓ اور ان کی منافقت اور سفاکیت دیکھتے ہوۓ ہورہے ہیں۔

انتہائی افسوس کا مقام ہے۔ جہالت کی انتہا ہے اور خود دین سے جہالت کی کیونکہ یہ دین کی سراسر غلط تفہیم ہے کہ قانون کو ہاتھ میں لیا جاۓ۔ اگلی نسل میں دین کا صحیح شعور منتقل کرنے کے بجاۓ صرف نفرت اور جنونیت منتقل کرنے سے دین کی حفاظت نہیں ہوگی۔ اس طرح کے اقدامات کا کوئی جواز نہیں۔

اٹھانوے فیصد مسلمانوں کے معاشرے میں چوری، دھوکہ، جھوٹ، بد اخلاقی، بد تہذیبی، حق کا غصب کرنا اور اس طرح کے دیگر واقعات جب لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں تو ان کی دین سے بیزاری بڑھتی ہے۔ مگر ہجوم کے ہاتھوں محض گستاخی کے الزام میں پچھلے چند سالوں میں جو سفاکیت دیکھنے میں آئی ہے، اس سے تو اب باعمل مسلمان بھی بیزار ہوگۓ ہیں۔

علماء اور مذہبی قائدین شھادت علی الناس کا فریضہ ادا کریں ناں کہ لاقانونیت کی خاموش تائید۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ علماء، مذہبی قائدین، خطیب اور داعی سب سے زیادہ آگے بڑھ کر اس چیلنج کا سامنا کرتے۔

Questions, Feedback or Comments

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.