Socio-Political Issues

پاکستان آزادی کے بعد: کیا کھویا کیا پایا



سلمان احمد شیخ


آج پاکستان میں ہم یوم آزادی پھرمنا رہے ہیں۔ معیشت میں ہم نے جی ڈی پی کے ساتھ ساتھ فی کس آمدنی میں بھی معقول اوسط نمو حاصل کی ہے۔ لیکن، ہمارا انفراسٹرکچر اور گورننس کمزور، پرانا اور آبادی میں اضافے کے مقابلے میں قابل اطمینان سطح پر نہیں ہے۔

بلاشبہ بدلتے وقت اور آبادی میں اضافے کے ساتھ پیداوار میں اضافہ خصوصاً صنعتی پیداوار میں اضافہ ناگزیر تھا اور ہوا۔ لیکن، بڑھتی ہوئی درآمدات، پیداواری لاگت اور عدم استحکام کی وجہ سے صنعت کاری زوال پذیر ہے۔ بہت محدود ویلیو ایڈڈ اور غیر زرعی برآمدات ہیں۔

اکثر و بیشتر، معاشی نمو درآمدات اورشرح سودکوکم رکھنے والی مالیاتی پالیسی کی وجہ سے طلب کو بڑھانے پر منحصر ہوتی ہے۔ لیکن پائیدار اور قابل ذکر پیداواری صلاحیت میں اضافہ کے بغیر ہمیں افراط زر اور مالیاتی خسارہ کا جلد سامنا کرنا پڑجاتا ہے۔ اس کی وجہ سے معاشی ترقی دیرپا نہیں رہتی اور کساد بازاری کاشکار ہوجاتی ہے۔

انصاف پرمبنی نظام، یکساں مواقع، اتحاد اور اعلی بصیرت رکھنے والی قیادت درکار ہے جس کے لیے عوام کو بھی اپنے شعور، دیانت، اخلاق اور حوصلہ کو بلند کرنا ہوگا۔ لسانی یا گروہی بنیادوں پرہی اپنے اپنے رہنماؤں کی ہر حال میں مدافعت ظاہر کرتی ہے کہ ابھی بھی شعور کی بہت کمی ہے۔

دیانت اور اخلاق کا یہ عالم کہ آپس میں کسی معاملے میں ایک دوسرے پر اعتماد نہیں تو کیوں کر ایسی قیادت نصیب ہو  جوخود دیانت دار اور قابل اعتماد ہو۔ محنت سے جی چرانے کا یہ عالم کہ سماج میں کامیاب انسان کا تصور ہی یہ کہ جسے زندگی میں اپنی ضروریات کے لیے کچھ نہ محنت کرنی پڑے۔

سرکاری اداروں میں رشوت کی بہتاب کے باوجود ان ہی اداروں میں نوکری ترجیح اور سرکاری نوکری کرنے والوں ہی کی قدر چاہے وہ رشوت خور بھی ہوں۔

ہمارا زیادہ بڑا بحران اخلاقی اور سماجی ہے۔ سیاست اور معیشت خود درست ہوجاۓ گی اگر اخلاقی اور سماجی بحران کو حل کرلیا جاۓ۔

مشرقی ایشیاء کے لوگوں سے ملتے ہیں تو لگتا ہے وہ ہماری طرح تیزاور چالاک نہیں۔ پھر وہ کیوں آگے اور ہم کیوں پیچھے۔ چالاکی سےکچھ افراد کچھ وقت کے لیے ترقی کرسکتے ہیں۔ محنت، دیانتداری، نظم و ضبط اور قانون کی عملداری سے پورا معاشرہ اور آئیندہ نسلیں بھی۔

جمہوریت کی کامیابی بھی اس سے وابستہ ہے کہ تعلیم اور شعور بڑھے اور عصبیت ہمارے فیصلوں پر اثرانداز نہ ہو۔ جو کچھ شعور ہے بھی اس سے سیاسی اور معاشی حوالے سے تو سوالات اخبارات و رسائل میں مقتدر حلقوں سے پوچھے جاتے ہیں، مگر اخلاقی اور سماجی بحران کا نہ ادراک ہے نہ اس کے لیے کوئی کوشاں اور نہ اس کے لیے ذمہ داری ہی کااحساس ہے۔

دینی قیادت کا جو سب سے موثر کردار ہوسکتا ہے وہ اصلاح اخلاق کی طرف توجہ۔ مگر ان کی توجہات اور ترجیحات میں اگر کوئی چیز نہیں شامل تو یہ۔ معیشت سے زیادہ بڑا بحران سماجی میدان میں اخلاقیات اور سیاسی میدان میں شناخت کا ہے۔ بدقسمتی سے معاشرے میں ہمارا مذہبی رجحان اور مذہبیت ان مسائل کو حل کرنے کے بجائے انہیں مزید پیچیدہ بنادیتا ہے۔

مذہبیت کا سب سے اہم سماجی کردار اخلاقیات میں بہتری لانے میں مدد دینا ہے۔ لیکن، یہ شاید ہی کبھی مذہبی جدوجہد کا مرکزی نقطہ رہا ہو۔ بلاشبہ، مذہبی تحریکوں اور گروہوں نے صدقات کی وصولی و تقسیم سے سماجی خدمت میں اپنا حصہ ڈالا ہے، لیکن مجموعی طور پر، بنیادی مقصد سیاست، قانون سازی اور حکمرانی میں مذہبی طبقہ کے لیے ایک بڑا حصہ حاصل کرنا رہا ہے۔

اخلاقی بہتری کی دعوت اور اس میں مستقل اور انتھک جدوجہد مذہبی مکاتب فکر، دینی مدارس اور علمائے کرام سے آنی تھی۔ مگر اس میں تشنگی رہی۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ کئی بار مذہبی جذبات کو غلط طریقے سے بھڑکایا جاتا ہے جس سے مسلمان اور غیر مسلم دونوں کے خلاف تشدد کو ہوا دی جاتی ہے۔ ہم خواتین کے حقوق کے حوالے سے بھی سب سے پیچھے رہ جانے والے ممالک میں سے ایک ہیں۔

سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ پر اخلاقی دباؤ اس وقت پڑتا جب اخلاقی طور پر عوام باشعور اور اخلاقی طرزعمل کو سب سے کلیدی اہمیت دینے والے ہوتے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اخلاقی طور پر باشعور معاشرے کی تعمیر کو کوئی بڑی اہمیت نہ دینا ہماری بڑی ناکامی ہے۔ ماضی سے لے کر اب تک سیاسی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ سے شناخت کی سیاست کے لیے قانون سازی میں معمولی باتوں کے لیے رابطہ کیا جاتا ہے۔ مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرنے دیا جانا چاہیے تھا، مگر ایسا کئی بار ہوا۔

قانون سازی کے لحاظ سے زکوٰۃ، عشر اور حدود کے لیے قانون سازی موجود ہے اور قانون سازی پر مستقل نگران کے طور پر شریعت کورٹس اور اسلامی نظریاتی کونسل بھی کئی دہائیوں سے قائم ہیں۔ ہماری ناکامی اس سب کے باوجود ہے۔

عصر حاضر میں انصاف اور امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے مذہبی قانون سازی کے ساتھ پارلیمانی قانون سازی ناگزیر ثابت ہوئی۔ حدود کے قوانین میں ثبوت کے لیے جو شرائط ہیں، ان سے جرم اور تعدی ثابت ہونا قریبا ناممکن ہوتا ہے۔ گو کہ یہ تفہیم ایک مغالطہ پرمبنی ہے۔ مگر مذہبی طور پرمشہور کسی ایک راۓ کو قرآن وسنت ہی کی روشنی میں ایک دوسرے تناظر میں سمجھنا اور سمجھانا ناممکن ہے۔ اسلامی بینکاری کسی حد تک قابل عمل ہے، لیکن یہ قابل عمل بھی اس وقت ہوئی جب تک کہ اپنے نتائج میں روایتی بینکاری کے عین مماثل نہیں ہوگئی۔

اب ہم ایک ایسا معاشرہ ہیں جہاں بدامنی، بے چینی اور عدم برداشت بڑھتی جارہی ہے۔ تخلیقی صلاحیت، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اور ذمہ داری کا فقدان ہے۔

ہم سےمذہب کا حقیقی مفہوم صرف گم نہیں ہوا۔ یہ کبھی سمجھ میں ہی نہیں آیا صحیح طور سے عوام کی اکثریت کو۔ پورے ملک میں شاید ہی چند سو یا شاید چند ہزار لوگوں نے قرآن کو سمجھ کر پڑھا ہو۔ حالانکہ جہاں بھی کچھ آبادی ہے وہاں ہر میل پر مسجد اور مدرسہ موجود ہے۔ مذہبی تعلیم میں توحید اور آخرت کی صحیح بنیاد اور عقلی  دلائل سے وضاحت کرنے اور اخلاقی شعور پر توجہ مرکوز کرنے پر بہت محدود توجہ دی گئی ہے، جو کہ قرآن کا بنیادی پیغام ہے اورجو پوری کتاب میں ہر جگہ پھیلا ہوا ہے۔

تفہیم اور شعور میں یہ کمی بھی بہت تباہ کن نہ ہوتی۔ لیکن، قرآنی ہدایت کی جگہ، جس چیز نے ہماری مذہبی گفتگو کی جگہ لے لی ہے، وہ محض رومانیت، جذباتی روش اور شیخ و اولیاء کے واسطے سے خدا کی طرف رجوع اور ان کے اختیارات اور واسطے پر یقین ہے۔

ہماری مذہبیت کسی علمی غور کا معروضی نتیجہ نہیں۔ یہ جذبات اور اس سے ہی لبریز ہے۔ مذہب سے وابستگی روحانی سے زیادہ روایتی ہے۔ یہ وطن کی طرح شناخت کا ایک تاریخی اور سماجی حصہ ہے اکثر لاعلم لوگوں کے لیے۔ جب ہم زندگی کے بنیادی سوالات کا معروضی انداز میں جواب نہیں تلاش کرتے اور ہمارے خیالات کسی علمی جستجو کا حاصل نہیں ہوتے تو پھر معروضی انداز فکر ہی کو گہن لگ جاتا ہے اور ہم ہر علم میں ہی اس کو مدنظر نہیں رکھ پاتے۔ اسی لیے ہماری علمی جدوجہد نقالی کی صلاحیت ہی پیدا کرپاتی ہے، ایجاد کی نہیں۔

کمزور اخلاقیات کا ظہور سیکولر تعلیمی اداروں میں بھی ہوتا ہے۔ علمی سرقہ کوسرقہ ہی تصور نہیں کیا جاتا۔ مقالات خریدے اور بیچے جاتے اور پیسے دے کر لکھوانے والا اسے اپنے نام سے شائع کرنے میں کوئی اخلاقی قباحت محسوس نہیں کرتا۔ فقہی جزیات پر نکتہ آفرینی ہوتی ہے مگر اخلاقیات کے باب میں اتنی فقاہت دیکھنے کو نہیں ملتی۔ زیادہ تر فری لانسنگ علمی مقالات اور اسائنمنٹ مکمل کرنے میں بڑھ رہی ہے۔ بہت سے لوگوں کو اخلاقی نقطہ نظر سے اس میں کوئی مسئلہ ہی نظر نہیں آتا۔

نہ صرف تنقیدی سوچ کی صلاحیت میں تنزلی آئی بلکہ جمالیات اور فنون لطیفہ میں بھی۔ ماضی کے تمام عظیم شاعر اور مصنفین برطانوی اور متحدہ ہندوستان میں تھے۔

یہ درست نہیں ہے کہ تکثیریت اور تنوع ایک مسئلہ ہے۔ کامیاب کاسموپولیٹن ریاستیں حقیقت ہیں۔ قانون کی حکمرانی اہم ہے۔ لیکن، قانون کی حکمرانی کے لیے اخلاقی طور پر باشعور معاشرے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے مذہب کا سماجی کردار اس ضرورت کو پورا کرنے میں ہنوز کامیاب نہیں ہوسکا اور اس ضرورت کو ضرورت ہی نہیں سمجھ رہا۔

اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ مذہب کے نام پر ہجوم کے انصاف کو فروغ دے کر قانون کی حکمرانی کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ جب لوگوں کو قانون ہاتھ میں نہ لینے کے حوالے سے واضح رہنمائی کی جانی چاہیے تو اکابرین حل و عقد بحران کو فتنہ کہہ کر اسکی وجوہات، حل تلاش کرنے اور کسی کو ذمہ دار ٹھہرانے کو ناممکن بنادیتے ہیں۔

بلاشبہ سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ نے بھی ملک کو سنگین نقصان پہنچایا ہے۔ لیکن، قانون سے بالاتر وہ تب ہوۓ جب اخلاقی سرزنش سے بالاتر ہوۓ۔ یہ ایک المیہ ہے کہ اخلاقی سوالات کو نظر انداز کرنے کے لیے پناہ بےروح مذہبیت میں چند اعمال اور نسبتوں سے اخذ کی جاتی ہے ناں کہ مذہبیت اور مذہبی اقدار اخلاقی شعور کو مہمیز دینے کے کام آۓ۔

لسانی اختلافات اور ان پرمبنی تعصبات نے ثابت کیا کہ شناخت اور قومی وحدت میں مذہب سے زیادہ لسانی تعصبات زیادہ گہرے ہوتے ہیں۔ ایسا مذہب کی حقیقی تعلیمات سے نا آشنا ہوکر ہی ممکن ہوتا ہے۔ افسوس کہ جس فکری اوراخلاقی تطہیر کے ذریعہ تعصبات کو مٹایا جاسکتا تھا، اس کے برعکس مذہبی مکاتب فکر خود آپس میں تقسیم در تقسیم ہوگۓ۔ یہ تقسیم بھی علمی سطح تک رہتی تو نقصان دہ نہ ہوتی مگر سب سے زیادہ منافرت اور تکفیریت خود مذہبی مکاتب فکر کے آپس میں ایک دوسرے کے لیے سامنے آئی۔ پھر اس طرح کے رجحانات کیوں کر کسی طرح قومی وحدت میں کوئی کام آتے۔

بہرحال کچھ چیزوں پر پھر بھی فخر کر سکتے ہیں۔ کھیلوں اور فنون میں انفرادی مہارت متاثر کن رہی ہے۔ یہ صرف کھیلوں اور فنون میں ہی ممکن ہے کہ سماجی حقائق اور سماجی قوانین کے برخلاف ایک کمزور قوم بھی ایک محدود سطح کی فتح حاصل کرسکتی ہے کسی کھیل میں۔ ہم نے کرکٹ، ہاکی، اسنوکر، اسکواش، باکسنگ، کبڈی، ریسلنگ اور کچھ ایتھلیٹک گیمز میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

عوام میں تعلیم کی کمی کے باوجود ہم نے شاندار سوچ رکھنے والے بھی پیدا کیے ہیں۔ گو کہ تعداد میں کم مگر دائیں بازو اور بائیں بازو کے درمیان ایسے مفکرین مل سکتے ہیں جو وقیع علم اور بالغ نظر رکھتے ہیں۔

لیکن، 78 سالوں میں، دنیا کے پانچویں سب سے زیادہ آبادی والے ملک سے، انفرادی ذہانت اور کامیابی کی چند داستانوں سے بہت کچھ زیادہ تاریخ میں رقم ہونا چاہیے تھا۔

معاملات کو تبدیل کرنے کے لیے، ہمیں درج ذیل امور پر کام کرنے کی ضرورت ہے

ہمیں اخلاقی طور پر باشعور ذمہ دار شہریوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمیں قانون کی حکمرانی کو تقدس دینےکی ضرورت ہے۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو سزا دی جائے اور قانون کے دائرے میں لایا جاۓ۔ قانون کی مکمل اورمثالی بالادستی ہو۔ اس کے لیے فوج، سیاستدانوں اور ججز کو عہد کرناہوگا کہ آئیندہ وہ اپنے ادارہ سے وابستہ لوگوں کوبھی قانون کی عمل داری کے لیے پیش کریں گے۔

ہمیں تنقیدی سوچ کو فروغ دینے کے لیے تعلیم میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ وسیع پیمانے پرتعلیمی ورکشاپس منعقد کی جائیں جن میں اسکل ڈویلیپمنٹ اور آئی ٹی پر توجہ ہو۔

سیاسی مداخلت، اقربا پروری اور لسانی اور نسلی امتیاز کو کم کرنے کے لیے معیشت کو زیادہ سے زیادہ نجی شعبہ کے حوالے کرنے کی ضرورت ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر جس کے مالی نقصان کو سرکار نہیں بھرتا، تعصب روانہیں رکھ سکتا۔

ہمیں آبادی میں اضافے کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ غربت کے ساتھ ساتھ جہالت اورناخواندگی کے چکر کو مزید مضبوط کرتا ہے۔

ہمیں رشوت کے جرم، دفتر سے غیر حاضری، سرکاری املاک کو نجی استعمال کے لیے استعمال کرنے اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے بارے میں حساسیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، ان کارروائیوں کے مرتکب افراد کو بغیر کسی تعصب کے مثالی سزا دی جائے۔

مذہب کو نہ فوج اپنے مقصد کے لیے استعمال کرے نہ مذہبی طبقہ خوداس کے لیے استعمال ہو۔ مذہبی قیادت کی جانب سے اصلاح اخلاق کو ہدف بنانا۔

اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی اور میڈیا کی پوری قوت کا مسائل کو اجاگر اور فالو اپ کرنے پرتوجہ ناں کہ محض سیاسی مناظرہ کرانے پر۔

امید ہے کہ یہ چند نکات ہماری سماجی گفتگو کا حصہ بن جائیں۔

Questions, Feedback or Comments

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.