سلمان احمد شیخ
اس مختصر مضمون میں محترم جاوید صاحب کےمعاشی افکار پر کچھ اشکالات پیش کیے جاتے ہیں، خاص طور پر وہ اشکالات جو بینکنگ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اپنے ان افکار کا خیال انہوں نے اپنی کتاب میزان کے قانون معیشت اور چند مضامین میں بھی کیا ہے جو ان کی کتاب مقامات میں چھپے ہیں۔ اس کے علاوہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا میں اورعوامی اجتماعات سے گفتگو کرتے ہوئے بھی ان افکار کا اظہار کیا ہے۔ چونکہ یہ پیچیدہ اور اطلاقی مسائل ہیں، اس لیے ممکن ہے اس میں اختلاف رائے اور اختلاف فہم پایا جائے۔ ایسا بھی ضروری نہیں کہ ایک دفعہ کے غور و فکر اور مشاہدہ و مطالعہ سے مسائل کی جڑ اور حل تک کامیابی سے پہنچا جاسکے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ ایک شخص ہی اس ساری تحقیق کو انجام دے یا اس کا ذمہ اٹھائے۔ چنانچہ تبادلہ خیال اور ایک دوسرے کے افکار کا جائزہ لینے میں قباحت نہیں بلکہ اس سے غلطی سے بچنے اور مسائل کے حل تک پہنچنے کا زیادہ امکان ہے۔ اس امید پر یہ چند اشکالات بصد احترام مزید غوروفکر کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔
پہلااشکال: روایتی بینکوں سے مارٹگیجزلینا
جناب جاوید صاحب نے اپنے حالیہ عوامی لیکچرز میں اس بات کی تائید کی ہے کہ روایتی بینکوں سے اثاثہ کی خریداری کے لیے کسی بھی قسم کا قرض لینا اسلام میں جائز ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فائنانس لیزاور مارٹگیج فائنانسنگ سب اسلام میں جائز ہیں۔ وہ یہ بھی اصرار کرتے ہیں کہ ان معاہدوں میں کوئی ناانصافی شامل نہیں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اثاثوں کی ملکیت حاصل کرنے کو آسان بنانے کے لیے بینکوں کی جانب سے یہ ایک خیر خواہانہ عمل ہے۔
اس نقطہ نظر کے جواب میں کچھ گذارشات پیش کی جاتی ہیں۔
روایتی بینک صرف قرض فراہم کرتے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ قرض کی رقم اثاثوں کی خریداری کے لیے استعمال ہوتی ہے یا نہیں۔
روایتی فائنانس لیز یا مارٹگیج فائنانسنگ میں سود قرض کی منظوری کی پہلی تاریخ سے آخری تاریخ تک واجب الادا ہوتا ہے۔
اس بات کی کوئی رعایت نہیں ہوتی کہ اثاثہ قابل استعمال حالت میں کس وقت صارف کو فراہم کیا جاتا ہے۔
اگر اثاثہ روایتی فائنانس لیز کے دوران ناقابل استعمال رہتا ہے تو سود اور اصل رقم کی ادائیگی سمیت قسطیں بغیر کسی وقفہ کے جاری رہتی ہیں۔
اگر سود کی رقم وقت پر ادا نہیں کی جاسکتی ہو تو ایک دن کی تاخیر پر بھی مالی جرمانے کے ساتھ واجب الادا سود پر مزید سود ادا کرنا پڑتا ہے۔ مالیات کے طالب علم جانتے ہیں کہ کس طرح مرکب سود تیزی سے بڑھ سکتا ہے۔
روایتی بینک خود اپنے سود کے وصول کرنے یا مارک اپ کو کرایہ نہیں گردانتے۔ وہ خود اپنے آپ کو سود سے پاک ہونے کا دعویٰ نہیں کر رہے ہیں۔ تمام مالیاتی شعبہ سے منسلک ماہرین اور پیشہ ور حضرات جانتے ہیں کہ فائنانس لیز اور مارٹگیجز کی قسطیں مرکب سود کا فارمولہ استعمال کرکے نکالی جاتی ہیں۔ روایتی بینکوں کو اثاثہ کی قیمت سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ہے۔ بینک ایک مالیاتی بروکر کے طور پر محض اپنے قرض کو سود کے ساتھ واپس حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
کہا جاسکتا ہے کہ اسلامی بینک بھی زیادہ تر بالکل سادہ اور عام کرایہ داری کا معاہدہ نہیں کرتے ہیں جس میں کلائنٹ اثاثہ استعمال کرکے لیز کی مدت کے بعد اسے واپس کر سکے۔ اسلامی بینک بھی لیز کاایسا معاہدہ کرتا ہے کہ کلائنٹ اثاثہ خرید کر اپنی ملکیت میں لے سکے۔ تاہم، اسلامی بینک اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ
اجارہ کی مدت کے دوران ملکیت بینک کے پاس رہے۔
وہ اثاثہ کی ملکیت سے متعلق اخراجات بھی براہ راست خود ادا کرتا ہے۔
پھر کلائنٹ سے کرایہ طے کرتے وقت ان اخراجات کو شمار کرتا ہے کہ بعد میں کرایہ سے ان اخراجات میں اپنی سرمایہ کاری کو پورا کیا جاسکے۔
معاشی پائیداری اور مسابقت کے لیے اسلامی بینک اپنی لاگت اور متوقع منافع کو مدنظر رکھتے ہوئے کرایہ وصول کرتا ہے تاکہ وہ اپنے ڈپازٹرز (سرمایہ کاری کرنے والے) کو مارکیٹ کے موافق منافع فراہم کر سکے۔
اسلامی طریقہ تمویل پر کوئی معاشی نقطہ نظر سے تنقید کرسکتا ہے اس بنیاد پر کہ اس کے نتائج اور اثرات یکساں ہیں۔ اسلامی بینکاری کے وسیع لٹریچر میں معاشی اور مالیاتی اثرات کے لحاظ سے تنقیدات پائی جاتی ہیں۔ مگر اسلامی بینکاری کے شریعہ کے مطابق ہونے کا انحصار شریعت کے اصولوں پر ہوتا ہے جیسا کہ مولانا تقی عثمانی صاحب نے اپنی کتاب غیر سودی بینکاری میں اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے واضح کیا۔ کوئی بھی قابل فروخت چیز یا خدمت ہر ایک کی دسترس اور کم قیمت پر ہو،یہ ایک جائز خواہش ہوسکتی ہے۔ مگر اس بات کا نہ پایا جانا اس پروڈکٹ کو شریعت سے متصادم نہیں بنادیتا کہ وہ مہنگی ہے یا ہر ایک کی دسترس اور خریداری کی قوت سے باہر ہے۔ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے اپنی کتاب غیر سودی بینکاری میں واضح کیا ہے کہ اگر اسلامی بینک اپنی موجودہ مالی خدمات میں منصفانہ تقسیم دولت کے وسیع البنیاد مقاصد حاصل نہیں کر پارہے ہیں، تو اس کا خود بخود یہ مطلب نہیں ہے کہ موجودہ مالی خدمات شریعت کے مطابق نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شریعت کی تعمیل ہر معاہدے میں شریعت کے قابل اطلاق قوانین کی عملداری پر منحصر ہے۔ مگر، اسلامی بینکاری پر تنقید کرتے ہوئے روایتی بینکاری کے جواز میں دلائل دینا ناقابل فہم ہے
جب کہ وہ نہ اثاثوں کی ملکیت لیتے ہوں۔
نہ اس کا خطر مول لیتے ہوں۔
نہ اثاثہ کو اپنے قبضہ میں لے کر اس کے مالیاتی اخراجات اٹھاتے ہوں۔
نہ ہی کرایہ کی وصولی میں اس بات کا لحاظ کرتے ہوں کہ اثاثہ موجود ہے یا نہیں۔
اثاثہ قابل استعمال حالت میں کلائنٹ کو مہیا کردیا گیا ہے یا نہیں۔
مہیا کرنے کے بعد بھی لیز کے دوران قابل استعمال حالت میں رہتا ہے یا نہیں۔
جناب جاوید احمد غامدی صاحب اپنی کتاب مقامات میں لکھتے ہیں: اگر چیزیں قسطوں پر فروخت ہو رہی ہوں تو جب تک یہ قسطیں پوری نہ ہو جائیں، بینک بیچی ہوئی چیز کی ملکیت میں شریک رہے، ملکیت کے حقوق پورے کرے اور اس پر کرایہ وصول کرے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف اسلامی بینک ہی ان شرائط کو پورا کرتے ہیں۔ یہ ناقابل فہم بات ہے کہ روایتی بینکنگ کو جن شرائط اور دلائل پر قابل قبول تصور کیا جارہا ہے، ان شرائط کو وہ پورا نہیں کرتے اور صرف اسلامی بینک ہی پورا کرتے ہیں۔ یہ باعث تعجب بات ہے کہ مصنف نے اسلامی بینکنگ پر تحفظات ظاہر کیے ہیں، لیکن وہ روایتی بینکوں سے غیر مشروط طور پر فائنانس لیز اور مارٹگیج فائنانس لینے کی اجازت دیتے ہیں۔ اسلامی بینکاری کا لٹریچر یا اس کے لیے جو دلائل مقبول ہیں، ان کا سہارا لے کر اسلامی بینکاری پر نقد کرنا اور سودی بینکاری کے لیے جواز پیدا کرنا تعجب کی بات ہے۔
جہاں بینک اثاثہ کی ملکیت، قبضہ اور رسک نہیں لیتا ہے، وہاں دو مختلف اوقات میں صرف رقم کا تبادلہ قرض کے دائرے میں آئے گا اور ایسی صورتوں میں، تبادلے کی قدروں میں فرق ربو پر محمول ہوگا۔ ایسے لین دین میں سود چھوٹا ہو یا بڑا اور قرض کی رقم کو کس مصرف میں استعمال کیا جائے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
دوسرا اشکال: سرمایہ کاری میں صرف نفع میں شرکت
جاوید صاحب کے نزدیک یہ ضروری نہیں کہ سرمایہ کاری میں نفع ونقصان میں شریک ہوا جائے۔ بلکہ نقصان میں بھی سرمایہ دینے والے کو شریک سمجھنا اس کے ساتھ ناانصافی ہے کیونکہ وہ فیصلہ سازی میں شامل نہیں ہوتا چنانچہ نقصان کی ذمہ داری اس پر عائد نہیں ہوتی۔
اس نقطہ نظر کے جواب میں کچھ گذارشات پیش کی جاتی ہیں۔
کچھ روایات سے فقہ میں الغنم بالغرم اور الخراج باالضمان کا اصول اخذ کیا جاتا ہے۔ یہ مثال غلط ہے کہ چونکہ قرض کے معاہدہ میں بھی قرض دینے والا نقصان کا ذمہ نہیں لیتا تو سرمایہ کاری کے معاہدہ میں بھی (جیسے مضاربہ اور مشارکہ) نقصان کی ذمہ داری سے سرمایہ کار کو بری الذمہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ قرض دینے والا نہ نفع میں حصہ دار ہوتا ہے نہ نقصان میں اور اسے اصل راس المال ملنے کی ضمانت ہوتی ہے۔
یہ کہنا بھی ٹھیک نہیں کہ نقصان کی ذمہ داری اس لیے نہیں عائد ہونی چاہیے کیونکہ فیصلہ سازی میں سرمایہ کار کو اختیار نہیں ہوتا۔ نقصان کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں جن کو روکنا ہوسکتا ہے کسی فرد کے بس میں نہ ہو۔ مشارکہ میں کوئی پابندی نہیں اگر سرمایہ کار فیصلہ سازی میں بھی حصہ بنے۔ جدید کارپوریشنز نفع ونقصان میں شرکت کے اصول پر ہی کام کررہی ہیں اور کئی بڑی اور منافع بخش کارپوریشنز کو اپنے شئیرہولڈرز اور اپنے منافع کے علاوہ بینک سے سود پر قرضہ لینے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔
یہ متعین کرنا بھی ممکن نہیں کہ نقصان میں کتنا حصہ کسی غلطی کے سبب ہوا ہے اور کتنا کسی اور وجہ سے۔ چنانچہ یہ کہنا کہ اس کو باہمی رضامندی سے طے کرلیا جائے، ناقابل عمل بات ہے۔ فقہ میں بہت معقول اصول ہے کہ نفع اور نقصان دونوں میں شرکت ہو اور نقصان میں بقدر سرمایہ کاری کے۔ باقی کوئی مسلسل نقصان دکھائے تو اس کے لیے سرمایہ کاری کے دروازے آئندہ کے لیے بند ہو جائیں گے۔ اسی لیے ایسا نہیں ہوتا کہ اس خدشہ کے سبب کسی بھی کمپنی کو بغیر نفع کی ضمانت دیے سرمایہ نہ ملتا ہو حصص مارکیٹ سے۔
جاوید صاحب کے یہاں معاملات کو شخصی دائرہ میں دیکھا جارہا ہے۔ بصد احترام، گمان ہوتا ہے کہ محترم اس بات سے پوری طرح واقف نہیں کہ کارپوریشنز کس طرح شئیرز بیچ کر سرمایہ حاصل کرتی ہیں بغیر کسی نقصان بھرنے کی ضمانت کے اور بغیر کسی منافع کی ضمانت کے۔ مشارکہ اور مضاربہ میں تو منافع کی تقسیم کو ضروری قرار دیا گیا ہے اور وہ بھی باہمی رضامندی سے تقسیم کی شرح کےمطابق۔ کارپوریشنز تو منافع دینے کی بھی سرے سے پابند نہیں۔ پھر بھی انہیں سرمایہ کاری مہیا ہوجاتی ہے اور بینک بھی بجائے فرد کو قرض دینے کے ان کارپوریشنز کو ہی بالعموم قرض دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس صورت حال میں یہ خیال محل نظر ہے کہ چونکہ نفع ونقصان میں شرکت قابل قبول نہیں سرمایہ کار کو تو نقصان میں شرکت کے اصول کو ہی ختم کردیا جائے اور پھر روایتی بینک سے ہر تجارتی تمویل پرمتعین تخمینی منافع طے کرلیا جائے۔
تیسرااشکال: بغیر نقصان کا ذمہ اٹھائے تخمینہ پر مبنی منافع کا جواز
محترم جناب جاوید صاحب کے نزدیک سرمایہ کاری میں نہ نقصان میں شامل ہونے کی ضرورت ہے نہ ہی اس بات کا حساب کرنے کی کوشش کرنے کی کہ منافع کتنا ہوا۔ بلکہ روپے کو بغیر نقصان اٹھانے کی ذمہ داری لیے اس شرط پر بھی دیا جاسکتا ہے کہ ہر ماہ و سال ایک متعین منافع لے لیا اور دے دیا جائے جس کا تخمینہ لگانا ہی کافی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ آپس کی رضامندی سے کوئی بھی شرط یا شق رکھی جاسکتی ہے معاہدات میں۔ اس لیے اگر اندازہ لگاکر ایک متعین منافع آپس میں رضامندی سے طے کرلیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
اس نقطہ نظر کے جواب میں کچھ گذارشات پیش کی جاتی ہیں۔
محض رضامندی ہی کسی معاملے میں کوئی شرط داخل کرنے کے لیے کافی نہیں ہوتی۔ آپس کی رضامندی سے کوئی باطل یا ناجائز کام نہیں کیا جاسکتا۔ کسی شریک کے لیے منافع متعین نہیں کیا جاسکتا کہ اس کو لازما اپنی سرمایہ کاری پر ایک متعین شرح سےمنافع ملے گا چاہے اصل منافع کتنا بھی ہو، یا نہ ہو۔
وہ اس بات کی پابندی کا بھی کوئی ذکر نہیں کرتے کہ حساب کتاب کے مطابق جو واقعی منافع ہو، اس کے مطابق اندازہ پر مبنی منافع کی تقسیم کو بعد میں درست کرلیا جائے۔ ان کی بات سے ایسا لگتا ہے کہ اس ایڈجسٹمنٹ کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اس میں پھر اختلافات پیدا ہونے کے امکانات ہیں کہ منافع کتنا تھا، کتنا نہیں۔
چنانچہ ان کی بات کا خلاصہ یہ ہوا کہ کوئی شخص روپے کو سرمایہ پر دے کر بغیر کسی نقصان اٹھانے کا ذمہ لیے پہلے سے کیے گئے اندازہ اور تخمینہ کی بنیاد پر متعین منافع کا مطالبہ ہر ماہ و سال کرسکتا ہے اگر دوسرا فریق بھی اس پر راضی ہو۔ کیا سود کی یہی تعریف نہیں۔ محترم جاوید صاحب کی یہ تجویز کہ کاروبار اگر بند ہوجائے تو صرف اصل سرمائے کا مطالبہ کیا جائے، یہ ایک دیوالیے کا مجوزہ طریقہ ہے۔ اس سے معاملہ کی سود سے مشابہت دور نہیں ہوتی۔
یہ فرمانا بھی درست نہیں کہ بینک جانچ کے لیے کلائنٹ اور اس کے کاروبار کا جو جائزہ لیتا ہے وہ اسی طرح کا جائزہ ہے جیسا ایک کاروبار میں شریک جائزہ لیتا ہے۔ بینک صرف اپنی رقم کی سود کے ساتھ وصولی کا اطمینان کرنے کے لیے جانچ کرتا ہے۔ عام طور پر یہ ساری جانچ قرض دینے سے پہلے ایک دفعہ ہی کی جاتی ہے۔ اس جائزہ کی روشنی میں کریڈٹ اسکور کے مطابق رقم، مدت اور سود کی شرح کا تعین کیا جاتا ہے۔ اس سارے عمل کو یہ سمجھنا ٹھیک نہیں کہ بینک کاروبار میں شریک ہوتے ہوئے کاروبار کا تجزیہ کررہا ہے اور اس تجزیہ سے کاروبار میں کوئی افادیت بڑھارہا ہے۔
چوتھا اشکال: سود لینا حرام ہے، سود دینا حرام نہیں ہے
محترم جناب جاوید صاحب کے مطابق سود پر قرض لینے والے کو سود مجبوری میں دینا پڑتا ہے۔ اس سے یہ ناجائز مطالبہ سود لینے والا کرتا ہے۔ چنانچہ سود دینے والا کوئی حرام کام نہیں کررہا ہوتا۔ اگر تو یہ بھی حرام ہوتا تو اس کا ذکر قرآن میں آتا جہاں تفصیل سے سورہ بقرہ میں سود زیر بحث آیا ہے۔ احادیث کے بارے میں ان کا موقف یہ ہے کہ وہ قرآن ہی کی شرح و وضاحت کرتی ہیں اور ان کو قرآن کی روشنی میں سمجھا جائے گا۔ چنانچہ ان کے مفہوم اور مصداق کو متعین کرتے ہوئے قرآن کی کہی بات میں کوئی اضافہ یا قید نہیں ہوسکتی۔
حدیث میں ہے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے اور سود کھلانے والے اور معاہدہ لکھنے والوں اور ان دونوں کی جو اس دستاویز کے گواہ ہیں، سخت مذمت کی ہے اور فرمایا: یہ سب کے سب گناہ میں برابر ہیں (صحیح مسلم)۔ محترم جاوید صاحب کا کہنا ہے کہ اگرچہ لفظ موکل سود پر قرض لینے والے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے جو سود ادا کرتا ہے، لیکن اس کا معقول مصداق وہ سمجھتے ہیں کہ سود کھانے والے کے ایجنٹ اور کارندے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ قرض لینے والے کو رقم کی ضرورت ہوتی ہے وہ ناحق سود ادا کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ وہ ناانصافی کا شکار ہو جاتا ہے۔ سود کا مطالبہ اور شرط اس کی طرف سے مقرر نہیں کی گئی ہوتی اور نہ ہی اگر اس کے پاس اختیار ہوتا تو وہ اس پر راضی ہوتا۔ وہ مثال دیتے ہیں کہ اگر خریدار کو نقلی یا ناکارہ چیز ملے تو اس میں اس کا قصور نہیں ہے۔ بیچنے والے نے یقینی طور پر غلط کیا ہے اور اس کی منافع خوری کو ناجائز سمجھا جائے گا۔ لیکن، ایسی صورت میں خریدار بے قصور ہے۔
اس موقف کے جواب میں چند گذارشات پیش کی جاتی ہیں۔
سود دینے والے شخص کو اس خریدار کی طرح دیکھنا مناسب نہیں ہے جو بیچنے والے سے ملاوٹ شدہ سامان وصول کرکے نقصان اٹھاتا ہے۔ وہاں، ملاوٹ شدہ سامان وصول کرنے کا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ صرف دھوکہ دہی ہے ایک جانب سے۔ اسی طرح ڈکیتی کا شکار شخص لوٹے جانے کا معاہدہ نہیں کر رہا ہوتا ہے۔
بہتر قیاس یہ ہے کہ اگر شراب پینا ممنوع ہے تو کیا اسے خود نہ پینے کے باوجود بیچا جاسکتا ہے؟ کیا ہم چوری شدہ سامان خرید سکتے ہیں؟ یہ جانتے ہوئے کہ بیچنے والے کے لیے چوری شدہ مال بیچنا اور اس پر منافع کمانا درست نہیں، کیا پھر بھی آدمی کو چوری شدہ سامان خریدنا چاہیے؟ یہ جانتے ہوئے کہ مال اسمگل کیا جاتا ہے اور اسے تجارت کے لیے غیر قانونی سمجھا جاتا ہے، کیا پھر بھی اسے خریدنا چاہیے؟ قانون اس کو کس طرح دیکھتا ہے؟ اگر کوئی شخص نان کسٹم ڈیوٹی پیڈ والی گاڑی خریدتا ہے تو قانون خریدار پر بوجھ ڈالتا ہے اور اس کی گاڑی ضبط کی جا سکتی ہے۔ مجبوری اور اضطراری کیفیت ایک الگ بات ہے۔ مطلقا ایک کام کو غلط ہی نہ جاننا ایک دوسری بات ہے۔
قرض کی بنیاد پر معاہدہ کرنا ایک آزاد، رضاکارانہ اور خودمختارانہ عمل ہے جس میں سود مقرر ہوتا ہے۔ بینکنگ میں، زیادہ تر قرض لینے والے کارپوریٹ ادارے ہیں۔ صرف پاکستان میں، بینکوں کی طرف سے پرائیویٹ سیکٹر کو فراہم کیے جانے والے کل قرضوں کا تقریباً تین چوتھائی حصہ کارپوریشنز کو جاتا ہے۔ یہ کارپوریشنز پہلے شئیرہولڈرز کے اپنے سرمایہ کے ساتھ قائم کی جاتی ہیں۔ ان کارپوریشنز کے پاس اپنی توسیع کے لیے سرمایہ حاصل کرنے کے دوسرے ذرائع موجود ہوتے ہیں۔
اسلامی بینک اور تمام روایتی بینکوں کی اسلامی بینکاری شاخیں سود سے پاک مختصر اور طویل مدت کے لیے سرمایہ حاصل کرنے کے حل فراہم کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ، حصص مارکیٹ بڑے پیمانے پر کارپوریشنز کی رسائی میں ہیں جہاں ایکویٹی فائنانس اور صکوک کو طویل مدتی فائنانسنگ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ کارپوریشنز جان بوجھ کر بینک سے قرض لینے کو ترجیح دیتی ہیں کیونکہ انہیں سودی قرض سستا لگتا ہے اور وہ اپنے منافع بخش کاروبار میں مزید شئیر ہولڈرز کو شامل نہیں کرتے۔ سودی قرض پر ٹیکس میں یہ چھوٹ کہ سود کو اخراجات میں دکھایا جاسکتا ہے، سود کے بوجھ کو مزید کم تر کردیتا ہے۔ چنانچہ ایسا نہیں ہے کہ تین چوتھائی سود پر قرض لینے والے کارپوریٹ سیکٹر کے لیے مجبوری ہے کہ وہ سود پر قرض لے۔ دوسری طرف چھوٹے کسان، دوکاندار یا مزدور کو تو بینک سرے سے قرض ہی نہیں دیتے کہ ان کی وکالت کرتے ہوئے سود دینے والے کارپوریٹ سیکٹر کو مجبور اور بے بس تصور کیا جائے۔
پاکستان میں اسلامی بینکاری ربع صدی سے کام کر رہی ہے۔ اس کے برانچ نیٹ ورک کی تعداد پانچ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے اور مختصر وقت میں اس کا مارکیٹ شیئر مستقل طور پر بڑھ کر تقریبا ایک چوتھائی ہو گیا ہے۔ پاکستان میں اسلامی بینکوں کا ہاؤس فائنانس میں شئیر اب روایتی بینکوں سے زیادہ ہو گیا ہے۔ اب اس موقع پر روایتی بینک جو مارٹگیج میں قلیل شئیر رکھتے ہیں مارکیٹ کا، ان کا دفاع سمجھ سے باہر ہے۔ پھر یہ بھی ان نکات کا سہارا لے کر جو صرف اسلامی بینک پورا کرتے ہیں، روایتی بینک نہیں۔ چنانچہ قرض لینے والے اکثر افراد اور ادارے مجبور نہیں اور اسلامی بینکاری سے افراد کو ہر طرح کی تمویل دستیاب ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ اداروں کو نہ صرف اسلامی بینکوں سے بلکہ حصص مارکیٹ میں شئیرز اور صکوک کے ذریعہ تمویل حاصل ہوسکتی ہے۔
یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ قبائلی عرب میں، بڑے اور منظم مالیاتی ادارے موجود ہوں گے جو سود پر مبنی قرض دینے کے کاموں کو آگے بڑھانے کے لیے بہت سے لوگوں کی خدمات حاصل کر رہے ہوں گے جیسا کہ آج ہے۔ تمام تر مثالیں جو ایجنٹس کی دی ہیں، وہ آج کے دور سے متعلق ہیں۔ قدیم قبائلی نظام میں کوئی شہادت پیش نہیں فرمائی جس سے یہ اندازہ ہو کہ وہاں ایجنٹس سود پر قرض دینے والوں کے لیے ایک منظم حیثیت میں کام کررہے تھے۔
پھر آج کے دور میں کارپوریشنز اپنے فاضل سرمایہ کو کچھ مدت کے لیے بینک میں سود پر رکھتی ہیں جب کہ طویل مدتی قرض بھی لیا ہوتا ہے۔ ان کی بیلنس شیٹ میں اثاثوں کی جگہ پر بینک میں سود پر رکھی رقم بھی ہوتی ہے اور ادائیگیوں کی جگہ پر سود پر مبنی حاصل کیا قرض بھی ہوتا ہے۔ یہ کسی بھی کارپوریشن کی بیلنس شیٹ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ پھر انٹربینک میں آج ایک بینک دوسرے بینک کا مقروض ہوتا ہے تو دوسرے دن دوسرے بینک کو قرض دینے والا۔ کئی دفعہ بیک وقت۔ ایسا نہیں ہے کہ مقروض صرف مقروض ہی ہوتا ہے اور مجبور محض ہے۔
پانچواں اشکال: سود پر قرض لینا تعاون علی الاثم (برائی میں تعاون) نہیں
محترم جناب جاوید صاحب کے مطابق سود پر قرض لینا بھی حرام ہوتا تو اس کا ذکر قرآن میں آتا جہاں تفصیل سے سورہ بقرہ میں سود زیر بحث آیا ہے۔ احادیث کے بارے میں ان کا موقف یہ ہے کہ وہ قرآن ہی کی شرح و وضاحت کرتی ہیں اور ان کو قرآن کی روشنی میں سمجھا جائے گا۔ چنانچہ ان کے مفہوم اور مصداق کو متعین کرتے ہوئے قرآن کی کہی بات میں کوئی اضافہ یا قید نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ وہ حدیث میں آئے لفظ موکل کا مصداق سود کھلانے والے یعنی ایجنٹ، کارندوں اور عملہ کو سمجھتے ہیں سود پر قرض لینے والے کو نہیں کیونکہ وہ ان کے نزدیک مجبور ہوتا ہے الایہ کہ اگر حکومت نے سود کو ممنوع قرار دے دیا ہو۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی سود پر قرض لے تو اسے تعاون علی الاثم کا مرتکب ٹھہرایا جاسکتا ہے۔
اس موقف کے جواب میں چند گذارشات پیش کی جاتی ہیں۔
سود کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ تو نوے کی دہائی کے شروع میں آگیا تھا۔ تقریبا ایک دہائی بعد اس کی پھر توثیق ہوگئ اور حکومت کو وقت دیا گیا کہ سودی نظام کو ختم کرے۔ پھر حکومت نے حیلے بہانوں سے کیس کو طول دیا۔ اکیسویں صدی کے اوائل میں پہلے دیے گئے فیصلہ کی پھر توثیق ہوگئی اور حکومت کو پانچ سال کا وقت دیا گیا کہ سودی نظام کو ختم کرے۔ حکومت نے اپیلیں بھی واپس لے لیں۔ اب قانون میں ایسا کیا مزید ہو کہ اسے اپنے ہی اصول کے مطابق تعاون علی الاثم کہا جاسکے۔ پھر صوبائی حکومتوں نے افراد کے آپس کے لین دین میں بھی سود کو ممنوع قرار دے دیا ہے۔ اس پر باقاعدہ قانون سازی ہوچکی ہے بشمول پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخواہ کے۔ اس سب تناظر میں تعاون علی الاثم کا اطلاق سود پر قرض لینے والے پر بھی جاوید صاحب کو اپنے ہی بتائے ہوئے اصول کے مطابق کرنا چاہیے۔
سود پر قرض لینے والی ایک بڑی گاہک خود حکومت ہے۔ پھر نجی شعبہ میں کارپوریٹ سیکٹر ہے جس کو تین چوتھائی کل نجی شعبہ کو دیےگئےقرض میں سے ملتا ہے۔ غریب، مجبور، ریڑھی والا، چھوٹا دوکاندار اور کسان تو کسی گنتی میں ہی نہیں آتے۔ سود پر قرض لینے والوں کو مجبور سمجھنا اور سودی قرض کے علاوہ کوئی متبادل نہ پاسکنا ایک مغالطہ ہے جب کہ اسلامی بینک اور حصص مارکیٹس کھلی ہوئی ہیں حکومت اور کارپوریٹ سیکٹر کے لیے۔ کوئی شہر نہیں جہاں اسلامی بینک کی برانچ نہ ہو۔ پانچ ہزار سے زائد برانچیں اور ہر بینک چاہے وہ اسلامی ہو یا روایتی ہو اسلامی بینکاری کی سہولت فراہم کررہا ہے۔ صارف کو گاڑی اور مکان کی ضرورت کے لیے جو فائنانسنگ چاہیے ہوتی ہے، وہ تو اسلامی بینک روایتی بینکوں کے مقابلے میں زیادہ تعداد میں فراہم کررہے ہیں۔ ان کا مارکیٹ شئیر روایتی بینکوں سے زیادہ ہے گاڑی اور مکان کی فائنانسنگ میں۔ ایسے میں انہیں تو مطعون اور ملامت کرنا اور جن اصولوں کو اسلامی بینکاری میں اپنایا جاتا ہے، وہ خود سے روایتی بینکاری میں فرض کرکے اسے جواز دینا محل نظر ہے۔
باقی یہ بات قرین قیاس نہیں لگتی کہ عرب کے قبائلی زمانے میں جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت دی کہ سود کھلانے والے بھی گناہ میں برابر ہیں، اس وقت سود کا منظم کام آج کے بینکنگ سسٹم کی طرح ہوتا ہوگا۔ اس کا ثبوت روایات سے انہیں پیش کرنا چاہیے ، مگر وہ صرف آج کے دور کی وہ مثالیں دے رہے ہیں جو انہیں اپنے آس پاس نظرآئیں۔ حالانکہ روایات سے معلوم ہے کہ اس وقت تجارتی قرض دیے جاتے تھے۔ اس وقت مضاربت اور مشارکہ کی بنیاد پر سرمایہ مل جاتا تھا اور ذاتی ضرورت کے لیے تو قبیلہ کے افراد ہی ضرورتیں پوری کرنے میں فراخ دل تھے۔ ایسے میں مشارکہ اور مضاربہ کی موجودگی میں کوئی تجارتی قرض سود پر لے تو اس کو بھی سود کے نظام کی ترویج میں حصہ بننے کا ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ جاوید صاحب خود میزان میں لکھتے ہیں کہ ان کا استعمال شاذ اور نادر حالات کے لیے ہوتا ہے بنسبت اذا کے۔ اس سے وہاں وہ خود یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ مقروض زیادہ تر مال دار لوگ ہی ہوتے تھے اور وہ بالعموم تجارتی قرض ہی لیا کرتے تھے۔
پہلے جاوید صاحب بینک کے عملہ پر سود کھلانے والوں کا اطلاق کرتے تھے۔ اب حال میں ان کو جو بینک کا کام کرنے کا طریقہ سمجھ آیا ہے، اس کے بعد انہوں نے بینک کے عملہ کو بھی سود کھلانے والوں کی فہرست سے نکال دیا ہے۔ حال کا اس لیے ذکر کیا کہ ایک وقت تھا جب جاوید صاحب نے عشروں پہلے ایک مضمون نیواکانومک فریم ورک میں یہ لکھا تھا کہ اسلام میں بینک کی سرے سے کوئی گنجائش ہی نہیں۔ ان کے نزدیک بینک اب کوئی سود پر کام کرنے والا ادارہ نہیں۔ بینک کے لیز، مارٹگیجز اور تجارتی قرضوں پر آمدنی کو وہ سود کے دائرہ میں نہیں سمجھتے۔ جہاں اثاثہ شامل ہوجائے وہاں وہ منافع کو خریدو فروخت یا کرایہ میں شمار کرتے ہیں چاہے خرید و فروخت یا کرایہ داری کا کوئی باقاعدہ معاہدہ نہ بھی ہو، اس کی دستاویز نہ بھی ہو، اس کا ایجاب و قبول نہ بھی ہو یا اس کا خیال بھی بینک اور کلائنٹ دونوں کے پیش نظر نہ بھی ہو۔ تجارتی قرض میں تو اثاثہ نہ بھی شامل ہو، وہ متعین منافع کو نقصان کا ذمہ اٹھائے بغیر بھی صحیح سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ان کے نزدیک سود کھلانے والے اب بینک کے علاوہ سود لینے والے کے کارندے ہیں جیسے اس کام کے لیے دوکانیں کچھ جگہ ہوتی ہیں۔ اب یہ کارندے کہاں پائے جاتے ہیں؟ کتنی تعداد میں ہیں؟ بینک کے علاوہ کتنا سودی لین دن ان دوکانوں کے ذریعہ ہوتا ہے؟ اور یہ کہ ان کارندوں کا کتنا وجود عرب کے قبائلی معاشرہ میں اس وقت تھا جن کا روایات میں حوالہ ملتا ہو؟ وہ اس میں کوئی روایات اور ڈیٹا پیش نہیں کرتے سوائے اپنے کچھ ذاتی مشاہدے کے اپنے ملیشیاء میں قیام کے دوران۔
چھٹا اشکال: کریڈٹ کارڈ، ربو جاہلیت اور مالی جرمانے
محترم جاوید صاحب کے نزدیک روایتی بینک کے کریڈٹ کارڈ میں کوئی قباحت نہیں۔ اس میں بینک ایک چیز جو ہم خریدنا چاہتے ہیں، اس کی خود قیمت ادا کردیتا ہے۔ پھر ہم سے ایک سے دو ماہ میں اس چیز کی قیمت ادا کرنے کو کہتا ہے۔ اس میں ہم ادا کردیں تو کوئی سود ادا نہیں کرنا پڑتا۔ مگر نہ ادا کرسکیں تو بینک جرمانہ وصول کرتا ہے۔ مالی جرمانے عام ہیں جیسے ٹریفک کے چالان وغیرہ۔ لوگ بجلی، گیس اور ٹیلی فون کا بل وقت پر ادا نہیں کر پاتے تو جرمانے دیتے ہی ہیں۔ ادنی مماثلت سے مالی جرمانے پر سود کا اطلاق نہیں ہوتا، نہ کرنا چاہیے۔
اس موقف پر کچھ گذارشات پیش کی جاتی ہیں۔
کریڈٹ کارڈ صرف اشیاء خریدنے کے لیے استعمال نہیں ہوتا۔ اسے اسکول کی فیس، بجلی کا بل، گیس کا بل، فون کا بل، موبائل کا بل، انٹرنیٹ کا بل، کئی طرح کے ٹیکس، خیرات، صدقات، دیگر ادائیگیاں اور قرضے چکانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ان سب مثالوں میں بینک کوئی چیز آئندہ استعمال کے لیے خرید کر نہیں دے رہا جس کو تجارت پر محمول کیا جاسکے۔ یہاں بینک قرض ہی دے رہا ہے ایک مقدار تک۔
جب قرض دے دیا تو اب بینک کے لیے جو قابل وصول رقم ہے وہ اس کا دیا ہوا قرض ہے۔ اس پر کسی قسم کے اضافہ کا مطالبہ سود ہی کہلائے گا۔ جاہلیت کا ربو جیسا کہ متعدد احادیث سے واضح ہے یہی تھا کہ جب مدت ختم ہوجاتی تو قرض کی میعاد کو اور بڑھا کر زیادہ رقم طلب کی جاتی۔ چنانچہ قابل وصول قرض کی رقم پر اضافہ کا مطالبہ جائز نہیں۔ اسی لیے علماء بجلی، گیس اور دیگر خدمات کے بلوں میں سرچارج وصول کرنے کو ٹھیک نہیں سمجھتے۔ یہ مغالطہ ہے کہ اسلامی بینک حیلوں کے ذریعہ جرمانہ عائد کرکے وہی کام کررہے ہوتے ہیں۔ اسلامی بینک ایک دفعہ ایک اثاثہ کو ایک قیمت پر بیچ دے تو تاخیر کی صورت میں جرمانہ لگاکر جرمانہ کی رقم کو اپنی آمدنی میں نہیں لے جاتے۔ اسے وہ خیرات کردیتے ہیں۔ یہ جرمانہ لگاتے بھی اس لیے ہیں کہ کلائنٹ اس کا عادی ہی نہ ہوجائے۔ لگایا بھی اس وقت جاتا ہے جب لاپرواہی یا غیر ذمہ داری کا ثبوت بھی ملے کلائنٹ کی جانب سے۔ ایک معروف بینک اپنے ایک ذیلی ادارہ کے ذریعے صرف اس خیرات کی رقم سے پورے ملک میں یونیورسٹیز کے طلباء کو غیر سودی قرض فراہم کرتا ہے اور نوجوانوں کو روزگار کے لیے سرمایہ اور ٹریننگ بھی۔
ٹریفک کے چالان کی مثال میں مالی جرمانہ قرض کی رقم کی بروقت ادائیگی کا نہیں ہورہا ہوتا۔ بلکہ قانون توڑنے پر ہوتا ہے۔ کوئی باطل شرط معاہدے میں داخل کرکے اس پر جرمانہ کو جائز نہیں قرار دیا جاسکتا۔ نہیں تو جرمانہ کی آڑ میں سود کو حلال کرلیا جائے گا۔ اس طرح تو کوئی بھی ایک دن کے لیے قرض دے اور عدم ادائیگی کی صورت میں جرمانہ کی آڑ میں سود آگے وصول کرتا چلا جائے۔
یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی کہ بینک محض کوئی احسان یا سخاوت کا مظاہرہ کررہے ہوتے ہیں کریڈٹ کارڈ فراہم کرکے۔ کریڈٹ کارڈ پر سود سب سے زیادہ بیالیس فی صد تک ہوتا ہے۔ کارڈ کی ایک متعین سالانہ فیس ہوتی ہے۔ بینک کا پلیٹ فارم استعمال ہوتا ہے۔ بینک اور کاروباری اداروں کے درمیان شراکت ہوتی ہے جس سے بینک میں کچھ عرصہ پیسہ پھنسا رہتا ہے۔ اس پر بینک مزید سود کماتا ہے۔ صارف زیادہ خریداری کرتا ہے تو کاروباری اداروں کی سیل بڑھتی ہے۔ یہ سیل کی رقم انہیں فوری اور مکمل نہیں ملتی۔ چنانچہ یہ احسان یا سخاوت کا معاملہ نہیں ہے محض جس طرح محترم جاوید صاحب اسے دیکھ اور سمجھ رہے ہیں۔
ساتواں اشکال: نیشنل سیونگ اسکیم میں متعین منافع سود نہیں
محترم جناب جاوید صاحب کا یہ موقف ہے کہ نیشنل سیونگ اسکیم میں حکومت جو پیسے لیتی ہے وہ اسے سرمایہ کاری میں لگاتی ہے اور اس پر جو منافع دیتی ہے وہ یک طرفہ اپنی مرضی سے رد احسان (اچھی صورت میں لوٹانا) کے طور پر دیتی ہے۔ چنانچہ اس پر سود کا اطلاق نہیں کرنا چاہیے۔ اگر بیوائیں، معذور اور بوڑھے افراد اس سے استفادہ کریں تو امید ہے اللہ کے ہاں ان کا اس بات پر مواخذہ نہیں ہوگا۔
اس موقف پر کچھ گذارشات پیش کی جاتی ہیں۔
حکومت نیشنل سیونگ اسکیم میں رقم قرض کے طور پر لیتی ہے۔ اسے قرض کے طور پر ہی شمار کرتی ہے۔ اس کی دستاویز، مارکیٹنگ، اکاؤنٹنگ اور رپورٹنگ قرض کے طور پر ہی ہوتی ہے۔ یہ سرمایہ کاری کے لیے رقم نہیں لی جارہی ہوتی۔ حکومت کا بجٹ دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ ٹیکس ہے۔ اس کے بڑے اخراجات پرانے قرضوں کی ادائیگی، ان قرضوں پر سود کی ادائیگی، دفاعی اخراجات، پنشن، حکومتی دفاتر کے اخراجات، سبسڈیز اور تعلیم اور صحت پر خرچہ شامل ہیں۔ ان اخراجات میں کوئی نفع بخش سرمایہ کاری نہیں ہورہی ہوتی۔
حکومت جن تجارتی اداروں کو چلاتی بھی ہے، وہ اکثر و بیشتر شدید نقصان میں ہیں اور بجٹ پر بہت بڑا بوجھ ہیں۔ ان کو چلانے کا مقصد بھی منافع کمانے سے زیادہ نجی شعبہ کے مقابلہ میں کم قیمت پر کچھ اشیاء اور خدمات مہیا کرنا ہے۔ بہرحال ان اداروں کے مالی معاملات اور سرمایہ کاری ان اداروں کی اپنی مینجمنٹ کی جانب سے ہوتی ہے۔ نیشنل سیونگ اسکیم سے ان کا قطعاکوئی تعلق نہیں۔
پھر بہت زیادہ لوگوں سے جب قرضہ لیا جاتا ہے تو سود ہر ایک سے بالمشافہ ملاقات میں طے نہیں ہوتا بلکہ اس کی اطلاع دی جاتی ہے کہ آپ قرض فراہم کریں تو اتنا متعین سود ملے گا۔ اس کو دیکھ کر ہی لوگ متوجہ ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ قرض دیتے وقت نہ متعین منافع کا پتہ ہوتا ہے نہ اس کی امید۔ بینک بھی متعین منافع کے بارے میں اشتہار اور نوٹسز کے ذریعہ اسی طرح اطلاع دیتے ہیں۔ نجی شعبہ میں بانڈز جاری کرنے والی کارپوریشنز بھی۔ چنانچہ یہ سمجھنا ٹھیک نہیں کہ سود کی ادائیگی یک طرفہ رد احسان ہے۔
ان سے استفسار کیا گیا کہ بینک بھی تو اسی طرح متعین منافع کی اطلاع اور اشتہار دیتے ہیں تو ماضی میں انہوں نے یہ کہ کر بینک کے متعین منافع کو رد احسان میں نہیں شمار کیا تھا کہ بینک کی کمائی کا ذریعہ سودی قرضے ہوتے ہیں۔ مگر جب حالیہ دنوں میں وہ بینک کو محض سودی ادارہ نہیں سمجھتے، اس میں کام کرنے والوں کو سود کھلانے والوں میں نہیں شمار کرتے، اس کے لیز، مارٹگیج، ہائر پرچیز اور تجارتی قرضوں میں متعین منافع لینے کو سودی کاروبار نہیں سمجھتے تو غالبا وہ بینک سے ڈیپازٹ پر متعین منافع کو سود میں بھی اب شمار نہ کریں۔ پھر اپنے ماضی کے موقف کے مطابق ان کے نزدیک اگر بانڈز ، پریفرڈ شئیرز اور ڈبینچرز جاری کرنے والی کارپوریشنز کا اپنا کاروبار ناجائز نہ ہو تو ان کے بانڈز، ڈبینچرز اور پریفرڈ شئیرز میں سرمایہ کاری کرنا بھی ٹھیک ہوگا اور سود کے دائرہ میں نہیں آئے گا۔ حالانکہ ان تمسکات میں یا تو قرض پر متعین منافع دیا جارہا ہوتا ہے جیسے بانڈز اور ڈبینچرز میں یا سرمایہ کاری میں نقصان کا ذمہ اٹھائے بغیر شرکت میں شامل ایک فریق کے لیے متعین منافع کی ضمانت دی جارہی ہوتی ہے جیسے پریفرڈ شئیرز میں۔ یہ موقف مصر کے عالم شیخ طنطاوی سے بھی منسوب کیا جاتا ہے۔ مگر جاوید صاحب علماء کے جمہور موقف اور پوری ایک صدی میں غور وفکر کے بعد جو متبادل پیش کیے گئےاور مارکیٹ میں اپنا لیے گئے اس سے بے نیازی میں ایک شاذ رائے پر اصرار کررہے ہیں۔
ان حضرات کے لیے جو ریگولر آمدنی چاہتے ہیں سود سے بچتے ہوئے ان کے پاس اسلامی بینک کی ڈیپازٹ پروڈکٹس، صکوک، اسلامی میوچل فنڈز اور تکافل کی پروڈکٹس دستیاب ہیں۔ اسلامی میوچل فنڈز کا حجم اب روایتی میوچل فنڈز کے مساوی اور کچھ کیٹیگریز میں زیادہ ہے اور نفع میں کارکردگی اور زیادہ بہتر۔ ایسے میں نیشنل سیونگ اسکیم میں متعین منافع کو سود کی تعریف سے نکالنا جب کہ اس ادارہ کو بھی اسلامائز کیا جارہا ہے، غیر ضروری محسوس ہوتا ہے۔
اضطراری اور مجبوری میں کوئی مشورہ بھی اس وقت دیا جاسکتا ہے جب متبادل نہ ہوں، جو کہ اب موجود ہیں۔ رد احسان کی اصطلاح استعمال کرکے قرض کے معاملے میں متعین منافع کو رد احسان کہنا درست معلوم نہیں ہوتا۔
آٹھواں اشکال: افراط زر سے قرض کی واپسی کی رقم کو ایڈجسٹ کرنا
محترم جاوید صاحب کا موقف ہے کہ اگر قرض کے معاملے میں اصل رقم کو افراط زر اور کرنسی کی گرتی ویلیو کے پیش نظر افراط زر کی مجموعی شرح سے ایڈجسٹ کرلیا جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ یعنی کسی نے ایک سال کے لیے دوسرے کو دس ہزار روپے دیے۔ اب مہنگائی سال کے دوران میں اوسطا دس فیصد بڑھ گئی۔ چنانچہ اب قرض دینے والا یہ مطالبہ کرسکتا ہے کہ اسے دس فیصد افراط زر ایڈجسٹ کرکے گیارہ ہزار واپس کیے جائیں۔ یعنی رقم کی قوت خرید کو واپس کردیا جائے جتنی وہ پہلے تھی۔ وہ فرماتے ہیں کہ اس کی نظیر دور رسالت میں اگر نہیں ملتی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت افراط زر اتنا زیادہ نہیں ہوتا تھا۔ عام طور پر اشیاء کا اشیاء سے ہی تبادلہ ہوتا تھا۔ اس طرح کی شرط معاہدہ کرتے وقت لگائی جائے تو اس میں حرج نہیں اور اس سے اس بات کا بھی سدباب ہوسکتا ہے کہ افراط زر میں کون سی شرح کس طرح سے ناپ کر ایڈجسٹ کی جائے۔ اس کا فارمولا یا بینچ مارک دونوں فریق آپس میں پہلے سے طے کرسکتے ہیں۔ اگر دونوں فریق آپس میں رضامند ہو جاتے ہیں ایسی شرط اور فارمولے پر تو اس میں کوئی غیر یقینی صورت بھی نہیں رہتی اور ناں ہی یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ قرض لینے والے کے ساتھ زیادتی ہے کیونکہ اسے اس شرط کا پہلے سے علم ہوتا ہے۔
اس موقف پر کچھ گذارشات پیش کی جاتی ہیں۔
افراط زر یعنی چیزوں کی مجموعی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ خود سود ہے۔ یہ سود کارپوریشنز بینک کو دے کر صارفین سے اشیاء اور خدمات کی قیمتوں میں اضافہ کرکے واپس وصول کرلیتی ہیں۔ چنانچہ اس کی اجازت دینے سے افراط زر کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ سکتی ہے یا بڑھے ہوئے لیول تک برقرار رہنے کا خدشہ ہے۔
دوسری بات یہ کہ قرض پر کسی بھی قسم کا اضافہ ربو کی تعریف میں آتا ہے۔ احادیث میں ایک درہم کے ربو سے بھی بچنے کی ممانعت ہے۔ فقہاء ربو کے شائبہ سے بچنے کے لیے مقروض کی سواری کا استعمال یا محض اس کے گھر کی چھاؤں سے مستفید ہونا بھی پسند نہیں فرماتے تھے۔ اگر افراط زر کے انڈیکس یا کسی اور شرح سے بھی آپس کی رضامندی سے ہی اضافہ کا فارمولا طے کرلیا جائے تب بھی اضافہ کا ایک فارمولا طے کرنا قرض میں واجب الادا رقم میں اضافہ کو جائز نہیں بنادے گا۔ کچھ حضرات اگر افراط زر کے حوالے سے ایڈجسٹمنٹ کی بات کرتے ہیں تو کچھ روز مرہ کے اخراجات کے انڈیکس کی۔ مگر یہ اضافہ کسی بھی آپس کے طے شدہ فارمولے سے ہو، اس اضافہ کو ربو ہی گردانا جائے گا قرض کے معاہدے میں۔ اس موقف میں سود جب تک افراط زر سے برابر یا کم ہو، وہ جائز کہلائے گا حالانکہ قرآن کا ارشاد ہے کہ قرض دینے والا صرف راس المال ہی کی واپسی کا مطالبہ کرسکتاہے۔ ممکنہ مواقع کی قیمت کو اصول کے طور پر مان کر ایڈجسٹ کرنا سود کی راہ کھولے گا۔
تیسری بات یہ کہ بہت سے ممالک کا ڈیٹا یہ بتاتا ہے کہ مجموعی طور پر اوسطا افراط زر کی شرح سود کی شرح کے آس پاس ہی ہوتی ہے۔ چنانچہ اس طرح کی ایڈجسٹمنٹ سے سودی شرح پر ہی معاملہ کرنا معمول بن جائے گا۔
چوتھی بات یہ کہ بہت سے ممالک میں سود کی شرح خود مرکزی بینک کی جانب سے افراط زر کو مدنظر رکھ کر ہی رکھی جاتی ہے۔ عمومی افراط زر قیمتوں میں اوسطا اضافہ ہے علاوہ انرجی اور کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں کے اضافہ کے۔ چنانچہ قرض کے معاہدہ میں افراط زر کے لحاظ سے شرح کا تعین بالواسطہ یا بلاواسطہ سودی شرح کے ہی معاملے پر اثر انداز ہونے کا باعث ہوسکتا ہے۔
پانچویں بات یہ کہ محترم جاوید صاحب یہ فرماتے ہیں کہ اس نقطہ نظر کے حامی بہت سے اصحاب فکر رہے ہیں، بلکہ اکثریت اس کو تسلیم کرتی ہے۔ مگر ان میں سے کسی کا حوالہ نہیں دیا۔ دوسری طرف او آئی سی فقہ اکیڈمی نے اس پر متفقہ فیصلہ دیا ہوا ہے اور اسلامک فائنانس سے وابستہ کسی ریگولیٹری ادارے یا کسی مرکزی بینک کے اسلامی ڈیپارٹمنٹ نے اس کی توثیق نہیں کی کہ افراط زر کی شرح سے راس المال کی واپسی کو ایڈجسٹ کرلیا جائے۔ چنانچہ شاذ آراء کے بالمقابل ریگولیٹرز کے متفقہ فیصلوں اور مسلم معاشی ماہرین کی بھی اکثریت کی رائے کے مطابق چلنا زیادہ مناسب ہے۔
آخری بات یہ کہ اسلامی بینکاری میں اس کے متبادل کے طور پر اثاثوں کی خرید و فروخت یااثاثوں کو کرایہ پر دیا جاتا ہے۔ اس صورت میں معاہدہ قرض کا نہیں رہتا اور اضافی رقم اثاثہ کی ویلیو یا اس کے استعمال کے کرائے کی ضمن میں آتی ہے۔ چنانچہ اسلامی بینکاری کی موجودگی اور اس کے بڑھتے ہوئے پھیلاؤ میں یہ تجویز محل نظر ہے۔
نواں اشکال: فارورڈ، فیوچر، آپشن اور شارٹ سیل کا جواز
محترم جناب جاوید صاحب فرماتے ہیں کہ فیوچرز ،فارورڈز ، آپشنز اور شارٹ سیل میں کوئی مسئلہ نہیں۔ اپنی کتاب میزان میں ان احادیث کا حوالہ دیتے ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر موجود شے اور قبضہ حاصل کرنے سے پہلے بیع کرنے کو منع فرمایا ہے۔ مگر اس کا آج کے زمانے میں اطلاق یا رعایت کی جائے، اس کی وہ ضرورت نہیں سمجھتے اس وجہ سے کہ ان کے نزدیک موجودہ معاملات میں وہ ضرر و غرر کا باعث نہیں بنتے۔
اس موقف پر کچھ گذارشات پیش کی جاتی ہیں۔
بصد احترام ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان عقود سے شاید پوری طرح واقفیت نہیں تھی جس وقت ان پر اظہار خیال کرنے کو کہا گیا سائل کی جانب سے۔ امید ہے ان عقود کی تفصیل صائب رائے قائم کرنے میں مدد دے گی ۔ معیشت کے طالب علموں کو معلوم ہے کہ فیوچرز ، فارورڈز ، آپشنز اور شارٹ سیل کے کیا نقصانات ہیں۔ کس طرح یہ سٹہ کو فروغ دیتے ہیں۔ ان پر او آئی سی فقہ اکیڈمی، اے او فی اور کئی اداروں نے برسوں محنت کرکے، ان معاملات کا معاشی، شرعی، سماجی اور قانونی پہلوؤں سے جائزہ لے کر متفقہ ہدایات دی ہیں قرآن و احادیث کی روشنی میں۔ یہ ہدایات بین الاقوامی اسٹینڈرڈز کے طور پر لکھی ہوئی بھی موجود ہیں اور اسلامی مالیات کے شعبہ سے وابستہ ہزاروں کارکنان کے بھی علم میں ہیں یہاں تک کہ کئی غیر مسلم حکومتیں، مالیاتی ادارے اور تجارتی ادارے بھی ان کا پاس رکھتے ہیں اسلامی مالیاتی اداروں سے معاملات کرتے ہوئے۔ اس سب سے بے نیاز ہوکر براہ راست غور فرماتے ہوئے احادیث کو بھی معیار نہ بنانا تعجب کی بات ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے واضح احادیث مروی ہیں کئی طرح کے عقود کے بارے میں تو ان پر کیوں عمل نہ کیا جائے اور کیوں نہ ان کی روشنی میں متبادل راستے اختیار کیے جائیں۔ جہاں ضرورت ہو وہاں روایات ہی سے سلم اور استصناع کے متبادل مل جاتے ہیں۔ جہاں عرف تبدیل ہو تو فقہ میں اسے بھی زیر بحث لایا جاتا ہے۔
بغیر کسی توقف کے ان تمام معاملات کو مباح کہنا محل نظر ہے یہ جانے بغیر کہ
فارورڈ کنٹریکٹس میں مستقبل کے سودے ہوتے ہیں۔ قیمت اور شے کا تبادلہ دونوں مستقبل کی طرف معین ہوتے ہیں۔ یعنی ایک مجلس میں بیع منعقد ہی نہیں ہوتی۔
فیوچرز میں ڈلیوری کے بغیر ہی محض سٹہ پر رقوم کا تبادلہ ہوتا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ مارجن پر زیادہ بڑے سودے کرکے سٹہ کھیلا جاتا ہے اور اس میں بیع کرکے قبضہ حاصل کرنا سرے سے پیش نظر ہی نہیں ہوتا۔
آپشنز میں کوئی شے ہی نہیں ہوتی جس کا عوض وصول کیا جارہا ہو بلکہ محض وعدہ کے عوض ناقابل واپسی رقم وصول کی جارہی ہوتی ہے بیع کے انعقاد کے بغیر۔
شارٹ سیل میں ایک چیز جو نہ ملکیت میں ہو نہ قبضہ میں، اسے فروخت کیا جارہا ہوتا ہے۔
اگر ان معاملات پر تھوڑا غور وفکر فرمالیتے تو خود جن احادیث کا میزان میں حوالہ دیا ہے، ان پر اطلاق فرماتے۔ یہ تسلیم کرتے ہوئے بھی کہ احادیث میں غیر موجود شے کی بیع اور قبضہ سے پہلے فروخت ممنوع ہے، وہ ان کا طلاق آج کے فارورڈز، فیوچرز، آپشنز اور شارٹ سیل پر کرنے میں متردد ہیں۔ حالانکہ نہ یہ کوئی جزوئے لاینفک ہیں معیشت میں بلکہ کئی دفعہ کساد بازاری اور مارکیٹ کریش کا باعث بن چکے ہیں جس کی کیس اسٹڈیز تقریبا ہر مالیات کے کورس میں پڑھی پڑھائی جاتی ہیں۔
اس کے علاوہ مرابحہ، سلم، وعد اور بیع عربون سے احادیث کی رعایت کرتے ہوئے جائز عقود بھی تجویز کیے گئے ہیں اسلامی مالیات کی نگرانی اور سرپرستی کرنے والے اداروں کی جانب سے۔ چنانچہ بہتر ہے ان متبادل کو اختیار کیا جائے ضرورت کے وقت اور ان عقود سے اجتناب کیا جائے جن سے احادیث میں بیان کردہ ہدایات کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔
Categories: Articles on Islamic Economics, Articles on Islamic Finance
